Monday 30 June 2014

HATH MAZLOOM BAHNOO.........................



ہاتھ مظلوم بہنوں کے ہوں گے اور ہو گا گریبان تیرا

وہ درخت سے جھولتی لاش میرے ذہن سے محو نہیں ہو رہی تھی، اس کی آنکھوں میں درد تھا ، کرب تھا ، اذیت تھی۔ وہ اپنے ساتھ برتی گئی وحشت کی کھلی تصویر تھی۔ میرے لیئے یہ کوئی نئی خبر نہیں تھی، ہر روز اسی تین چار خبریں نظروں سے گزرتی ہیں اس لیئے ان میں کوئی جدت نظر نہیں آتی، میرا مطمع نظر تو حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی چالاکیاں تھیں، یا وزیرستان آپریشن۔ ایسے میں اس طرح کی خبروں پہ دھیان کون دے؟  مگر رات کو اپنے بیوی بچوں سے گپ شپ لگاتے اچانک وہ تصویر میرے لاشعور سے سفر کرتی میرےدماغ پر دستک دینے لگ گئی۔  کھانے کا چمچ  ہاتھ سے منہ تک لیجانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ،بچے مجھے بلا رہے تھے پر میں اپنے حواس پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک اور تصویر نے میرے بے حس دل پر اپنا عکس ظاہر کیا۔
گھر میں شوروغل تھا، جواں سالہ بیٹی جس سے علاقے کے بااثر کمینوں نے عزت چھین لی تھی ، انصاف نہ ملنے پر اس نے تھانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔ اس نے زندہ رہ کر روح زخمی کروائی تھی، مگر جل کر شاید اس کی روح کے رستے زخموں کو کچھ آسودگی ملی ہو۔ ابھی اس کی دردناک چیخوں نے ساتھ نہیں چھوڑا تھا کہ اک اور طرف نظر پڑی۔
چھ سالہ کمسن لڑکی  کی معصوم روح کو اس مزدور نے اتنی بیدردی سے بھنبھوڑا تھا کہ شاید ہسپتال سے اس کو زندگی تو مل جاتی مگر اس کی روح پر لگے زخم شاید زندگی بھر نہ مندمل ہو  سکیں۔ اس پر یہ درخت سے لٹکتی بیس سالہ  حواؑ کی بیٹی، جس سے اجتماعی زیادتی کے بعد اس کا گلہ گھونٹ کر درخت سے لٹکا  دیا گیا تھا، میں نے اپنی  20سالہ سدرہ کی طرف دیکھا، میری آنکھیں بھر آئیں۔
آپ سب اس طرح کے چار پانچ واقعات روزانہ سنتے ہیں ، پر  یہ ہم پر کچھ اثر نہیں کرتے، کیوں کہ ہم ان کو اپنی بیٹیاں نہیں سمجھتے؟ ہمارے لیئے اس طرح کی خبر میں دلچسپی کا عنصر بہت کم ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات جو اغیار  کی فلموں، ڈراموں کا لازمی جزو ہوتے ہیں، اس کو بھی ہم اسی نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں کہ یہ بھی کوئی فلمی سین ہی ہے،   کسی ظلم کو ہوتے دیکھ کر اس کی وڈیو تو بناتے ہیں مگر اس کو ہاتھ سے روکنے کے لیے جس غیرت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم میں مفقود ہے۔
ارباب اختیار سے تو کیا گلہ کہ وہ اپنی پوانٹ سکورنگ کے لیے بڑے بڑے بیان جاری کرتے ہیں، نوٹس لیکر میڈیا میں کوریج لیتے ہیں، ووٹ بینک بڑھاتے اور پھر آرام سے سو جاتے ہیں۔
اپنی سیاسی وابستگی کا لیبل ہٹا کر صرف نظر انصاف سے اتنا دیکھ لیجیے کہ اگر ان  واقعات میں  (خدانخواستہ) کسی وزیر کی بیٹی نشانہ بنتی یا کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کی بہو،کسی وڈیرے کی بیٹی یا کسی مخدوم کی بہن،کسی چوہدری کی بہو یا کسی فوجی جوان کی بیوی ، کسی پولیس افسر کی بیٹی یا کسی  بڑے حکومتی عہدیدار کی بیٹی تو کیا صرف نوٹس لیکر بات ختم کر دی جاتی؟ کیا ایسے ہی دم توڑتے انصاف پر بھروسہ کر لیا جاتا؟ یہ کہنا تو آسان ہے کہ یہ بھی میری بیٹی کی طرح ہے، پر اپنی بیٹی کو اس جگہ رکھ کر دیکھنا بڑا مشکل ہے۔چھ چار لاکھ کی امداد کا اعلان تو آسان ہوتا ہے(کہ وہ تو حکومت کے خزانے سےجانے ہوتے ہیں) پر اپنی لٹی عزت پر نا ملنے والے انصاف پر صبر مشکل ہوتا ہے۔(ایسے وقت میں خودکشی  ہی سب سے آسان لگتی ہے)   
آپ ان کو تو چھوڑئیے اپنے اوپر ہی نظر ڈال لیں، کیا اگر کوئی آپ کی بہو، بیٹی یا بہن سے یہ کریہہ فعل کرے تو اس کے لیئے آپ کے تاثرات کیا ہوں گے؟ کیا صرف کانے قانون سے انصاف کی امید رکھیں گے، کہ اگر کوئی چھوٹا مجرم ہو تو فورا سزا مل جائے، ورنہ بڑوں کے سارے جرائم کو قانونی تحفظ ملیں؟
کیا ہم اسی ابن قاسم کے ورثا ہیں جو ایک بہن کی فریاد پہ ہزاروں میل کا سفر کر کے راجہ داہر سے آٹکرایا تھا!
وہ دانشور جو اپنی گفتگو میں، سیاستدان اپنے ٹاک شوز میں اور بڑے بڑے فلاسفر اپنی محافل میں  اسلامی قوانین کو کالے قانون کہتے ہیں، اپنی حکومتوں کو سیدنا عمر رضی اللہ کے سنہری دور سے ملا کر زمین آسمان کے فاصلے مٹاتے ہیں، رجم اور کوڑوں کو بربریت قرار دیتے ہیں، اللہ کی زمین پر اس کے ہی قوانین کے نفاذ کو دقیانوسیت سمجھتے ہیں، اسلامی اقدارو رسومات کی پیروی کرنیوالوں کو جاہل، گنوار اور دور حاضر کے تقاضوں سے بے بہرا و نا آشنا قرار دے کر خود کو سیکولر کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، میڈیا کے ذریعہ نئی نسل کی رگوں میں فحاشی کا زہر اتارے جانے کو تہذیبوں کے ملاپ کے خوشنما نعروں سے سجاتے ہیں، ہر میدان میں مردوزن کے اختلاط کو ترقی کی شرط گردانتے ہیں،  کیا وہ ذر ا اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کے اٹھتے جنازے کا حل پیش کر سکتے ہیں؟ اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے،عوام کے فیصلے سے حکومت میں آنے کے دعویدار حکمران ،جن کے چہرے جو اپوزیشن میں رہتے مرجھا سے جاتے ہیں، پر حکومت میں آتے ہی سر سبز و شاداب ہو جاتے ہیں (شاید یہ قوم کی فکر کا نتیجہ ہو جو کہ صرف اپوزیشن میں ہی سر چڑتی ہے) یا آزاد میڈیا، جو پیسے اور اشتہارات کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے یا ہم سب (جو آنکھیں بند کر کے اس کبوتر کی طرح  سوچتے ہیں کی جب میں بلی کو نہیں دیکھ  رہا تو وہ بھی نا دیکھ سکتی اور نا نقصان پہنچا سکتی ہے)؟؟؟؟