Thursday 28 August 2014

IBLEES SY YARANA BI



۔۔۔۔۔۔۔ابلیس سے یارانہ بھی

Speech Competition اپنا یہ زوہیب  بھی نا!!!قسم سے  جیئنیس ہے ۔ کل کے
۔ Topper میں اس نے کمال کر دیا ، یار ہے تو یہ سائنس کا سٹوڈنٹ، باٹنی ذوالوجی کا
پر کل لگ رہا تھا کہ اقبالیات پر "ڈاکٹرز" اسی نے کیا ہے۔۔۔۔ ہر با رکی طرح دہرایا جانے والا فقرہ میں نے مسکراتے ہوئے سنا۔
اور سر اسد کی تو حالت دیکھنے والی تھی، اردو ڈیپارٹمنٹ میں سے سب سے بہترین بندہ چنا تھا  انھوں نے، دو دفعہ کا ونر۔۔۔۔
پر بن گیا بھیگی بلی۔۔۔۔۔ارسلان نے حمزہ کو لقمہ دیتے ہوئے کہا
ہاہاہا۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔۔۔۔۔قہقہہ کی صدا بلند ہوئی
میں اپنی کلاس کے ساتھ  سٹوڈنٹ کیفے میں بیٹھا ٹریٹ کھا رہا تھا  جو جیتنے کی خوشی میں انہوں نے مجھے دی تھی۔
اس طرح کی کتنی ٹریٹس میں کھاتا تھا سال میں؟؟؟ مجھے تعداد یاد نہیں رہی کبھی۔۔۔۔
اچھا یار زوہیب کیا یہ سچ ہے کہ تو اس بار "بزم اقبال"کا صدر اور یونیورسٹی کے سالانہ میگزین کا چیف ایڈیٹر بن رہاہے؟؟؟  راحیل نے انکشاف کے لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔
ابھی تک تو کنفرم نہیں۔۔۔ پر کل والے مقابلے کے بعد شاید وہ میرے نام پہ غور کریں۔۔۔۔۔ تم کو تو پتا ہے کہ میں ان چیزوں کا ہیڈک نہیں لیتا۔
نہیں لیا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں ۔۔۔ تو کیوں لے گا! وہ تو اب اردو ڈیپارٹمنٹ والے لیں گے نا، جن کی بزم سے 20سالہ بادشاہی ختم ہونے جا رہی ہے 20سالہ بادشاہی ختم ہونے جا رہی ہے۔۔۔احمد نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
آخر ان کو بھی تو پتا چلے کے سائنس کے سٹوڈنٹس میں بھی ادبیت کے جراثیم ہو سکتے ہیں۔۔۔۔کیفے قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھا۔
   


زوہیب سر۔۔۔ پلیز میری بات سنیئے گا!!!
ایک جونیئر بھاگتا بھاگتا مجھے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔ سر میں اتنے دن سے آپ کو تلاش کر رہا تھا۔ "Competition
کے بعد آپ کبھی نظر نہیں آئے۔     والے دن
میں نے آپ کی "سپیچ "سنی، میں آپ کا فین ہو گیا ہوں۔۔۔۔      
آٹوگراف چاہیے ؟؟؟ میں نے مسکراتے ہوئے اسکی بات کاٹی۔۔
سر میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں گا۔۔۔خوشی اور جوش سے اس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا۔۔۔۔
میں دن میں کئی دفعہ اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتا تھا، پر مجھے یہ اچھا لگتا تھا کہ میر ے چاہنے والے میر ا انتظار کرتے ہوں، میرے ساتھ لمحات گزارتے فخر محسوس کرتے ہوں اور میرے بعد مجھ پہ رشک کرتے ہوں۔۔۔






 
میں لائبریری میں گیا ہی تھا کہ راحیل نے آواز دی۔۔۔ زوہیب ، زوہیب
میں نے پلٹ کر دیکھا تو پورا گروپ  "جنرل بکس" کی الماری کے گرد اکٹھا دیکھا۔۔۔۔
اوئے ! خیریت تو ہے نا؟؟؟ (جن لوگوں کو کبھی کورس بکس کے اور انگلش ناولز کے علاوہ کبھی دیکھا نہیں تھا انہوں نے "اقبالیات" اٹھا رکھی تھی۔۔۔!)
نہیں ہے۔۔۔ !!!امجد ناگواری سے بولا۔
ہوا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟میں نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا
یار یہ جو اپنا نیا پروفیسر آیا ہے نا "کامن سکلز"کا۔۔۔ اس نے اسائنمنٹ دی ہے کہ ہر سٹوڈنٹ "اقبال"  کے کچھ شعر سلیکٹ کرے اور ان کی 5 "پیجز"کی تشریع کر کے لائے۔۔۔۔۔
تو اس میں پرابلم کیا ہے۔۔۔! میں نے مسکراتے ہوئے کہا
ہمارے باپ۔۔۔! یہی تو  پرابلم ہے کہ اقبال کی شاعری ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے،  شیکسپئر کے ڈرامے پڑھنے کے عادی ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔اسفر غصے سے بولا
اب "شاہیں "کو ہی لے لو ۔۔۔ کتنا ذلیل کیا ہے "انکل اقبال "نے اسے۔۔۔۔راحیل نے قہقہہ لگاتے کہا
مجھے تو اردو شاعروں میں صرف وصی اچھا لگتا ہے۔۔۔ کا ش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا۔۔۔۔۔۔۔حمزہ گنگنایا
اور وہ "حسیں ہاتھ" ویسٹ انڈیز کی کسی "حسینہ " کا ہوتا۔۔۔۔۔ میں نے لقمہ دیا
حمزہ کی تو شکل دیکھنے والی تھی۔۔۔ سب نے دبی آواز میں قہقہہ لگایا(کھڑوس لائبریرین بہت چالو ہے اس حوالے سے۔۔۔۔)
یار ذوہیب! تو اقبال کہ شاعری پہ اتنی تقریریں جھاڑتا ہے ۔۔۔ یاروں کا اتنا سا مسلہ نہیں حل کر سکتا۔۔۔؟
نا صاحب نا۔۔۔۔۔۔۔  ریلٹیوگریڈنگ ہے۔ میں نے بھی تو ٹاپ کرنا ہے۔۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
تیری تو۔۔۔۔۔۔ چل باہر بتاتے ہیں تجھے۔۔! سارے مصنوعی غصے سے بولے!!!
اچھا ۔۔۔!چلو مجھے  "کے ایف سی"سے ایک ڈیل کھلا دو تو تم پانچوں کا  پرابلم ختم۔۔۔
ڈن۔۔۔۔سب نے ایک ساتھ کہا۔
اپنے اپنے شعر سلیکٹ کر کے لےآنا۔۔۔ میں سب کو گایئڈ کر دوں گا۔۔






 
یار زوہیب !!میں نے یہ سلیکٹ کیا ہے۔۔۔ اس کے پوائنٹ بنوا دو۔۔۔۔۔۔۔کل جمع کروانی ہے اسائنمنٹ۔۔۔۔ اسفر نے ایک پیج میرے طرف بڑھایا۔

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟؟؟

سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟؟؟؟

ایک لمحے کے لیئے سردی کی لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی۔مجھے اپنا سارا ماضی، حال اور مستقبل اس ایک شعر کے اندر سموتا ہوا نظر آیا۔۔۔۔  ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔ میں نے تو ساری "کلیات اقبال" پڑھ رکھی تھی۔۔۔۔۔ جو سنسنی میرے جسم میں  اب اتری وہ تو کبھی "شکوہ و جواب شکوہ" سے بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔

" آرزوں سے لبریز دل، خواہشات سے معمور دماغ، آسائشوں کا متلاشی جسم ۔۔۔۔۔ یہ میری حقیقت تھی۔۔۔ نماز پڑھنے جب بھی جاتا تھا تو دل میں عجیب سی بے چینی ہوتی تھی۔۔۔ جلد سے جلد دو چار سجدےکیئے اور "اللہ رحیم ہے" کا نعرہ مستانہ لگا کر باہر۔۔۔ ہاں کبھی سینما میں جانا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔ظاہر یہ کرتا تھا کہ میں تو جانا  نہیں چاہتا، یہ دوست ہی زبردستی کرتے ہیں۔۔۔۔دل تو باغ باغ ہوتا تھا۔۔۔۔تقریروں میں اغیار کے بڑے گِلے۔۔۔۔پر میرا تمدن ہنودی اور وضع نصرانی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جن تحاریر پر مجھے انعامات ملتے تھے ان میں سے اکثر "عشقِ رسولﷺ" پر ہوتی تھیں، لوگ میرے بیاں کردہ جذبات پر سر دھنتے تھے۔۔۔۔۔۔پر زندگی میری   تھی ابلیسی طرز  پر۔۔۔۔ کہاں وہ "نماز" کے تیر لگنے کی تکلیف پر "محبوبِ حقیقی" سے بات کرنے کا لطف بڑھ کر  تھا۔۔۔۔ میں تو سجدہ کہیں اور کرتا اور سوچتا کہیں اور۔۔۔۔۔ کہاں وہ تلاوت کے سننے کے لیے آسمان سے  ملائک آئیں۔۔۔۔۔۔کہاں یہ "قفل" لگے کانوں کی سماعت۔۔۔۔۔۔ کہاں وہ جاں بلب  دوسرے کی پیاس پہ نثار۔۔۔۔ کہاں میں کہ اخوت بنی دشوار۔۔۔۔۔ کہاں وہ  رات کے "راہب" اور دن کے "مجاھد"۔۔۔۔۔ اور کہاں  آج کے "پاسباں" جو مل گئے کعبے سے صنم خانے کو۔۔۔۔۔۔کہاں "عشقِ بلال رضی اللہ" کی گرمیاں۔۔۔۔۔۔اور کہاں "لیلی ِ دنیا" کی حوس۔۔۔۔۔۔کہاں بت شکن رہ گئے۔۔۔۔میں تو "آذر" ہوں۔۔۔۔ میرا ایک ظاہری حلیہ ہے جس سے سب واقف۔۔۔۔ ایک میرا باطن،جو گرد آلود ۔۔۔۔۔۔ایک میری جلوت ہے جو ہے نعروں سے معمور۔۔۔۔ اور میری خلوت"عصیان" سے لبریز۔۔۔۔۔ساری زندگی میں نے ابلیس سے یاری نبھائی۔۔۔۔۔اور حکم خدا سے پیٹھ دکھلائی۔۔۔۔۔میں " اللہ" کا بھی ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔ پر ان شیطانی شہوتوں کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ میں زمیں پر "خلافت" کا جھنڈا سر بلند دیکھنا بھی چاہتا ہوں۔۔۔۔پر "بنیاد پرست" ،  دقیانوسی کہلانا نہیں چاہتا۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ میری شریک حیات"با عفت، حیا دار" ہو۔۔۔۔۔ اور خود " جسٹ فار انٹرٹین" کتنی ہی عورتوں سے تعلق رکھتا ہوں۔۔۔۔۔میں "اللہ" کو بھی راضی دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔پر مخلوق کی ناراضگی میری برداشت سے باہر۔۔۔۔۔میں "مومن" بھی کہلانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔پر ان "ایمان کے آیئنوں" کے سے عمل کر کے جدید دور کے تقاضوں سے دور نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔ان کا تو دل کسی "ایک" کے پاس اور نگاہ کسی "خاص "کی متلاشی تھی۔۔۔۔ ادھر "خرد" کی دل و نگاہ مسلماں نہیں۔۔۔۔۔ان کی نگاہ میں "یا سیدی" بڑے عاشق کے لیئے تھا۔۔۔۔ میرے نزدیک وہ ہیرو جو میرے مغربی آقاؤں کا بڑا نقال(پروفیشنل) ہو۔۔۔ وہ صرف کردار کے نور سے مجسم۔۔۔میں صرف گفتار کا غازی۔۔۔۔میں ثابت۔۔۔ وہ سیارے۔۔۔۔انہوں نے قرآں کو سینے سے لگایا ، کعبہ کو  جبینوں سے بسایا۔۔۔۔ میں نے ترکِ قرآں کا بار اٹھایا۔۔۔۔دشت تو دشت ، دریا بھی نا چھوڑے تم نے۔۔۔۔گنوا دی اسلاف سے جو میراث پائی تھی ہم نے۔۔۔۔۔
ہاں واقعی میں حشر میں کس سے "وفاداری" کا صلہ مانگوں گا۔۔۔۔ !!!! حالانکہ کہ میں جانتا ہوں کہ میرا "اللہ" تو وہ دل دیکھتا ہی نہیں جس میں "دنیا" بسی ہو۔۔۔۔اور مومن تو"اللہ" سے شدید محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔اور عباد الرحمان تو وہ ہیں جو راتوں کو رکوع اور سجود میں گزارتے ہیں۔۔۔۔۔ میں بھی انہیں "بندوں" کی لسٹ میں شمولیت چاہتا ہوں، پر 18+ اور ہالی ووڈ  موویز کے ساتھ رات بسر کرتا ہوں۔۔۔۔۔اور وہ جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جن کے سامنے جب "اللہ" کی آیات کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ "میری" طرح ان پر اندھے اور گونگے بن کر نہیں گرتے۔۔۔۔۔ اور جن کے دل ڈر جاتے ہیں۔۔۔ جو خو ف اور طمع کے ساتھ "رب" کے حضور حاضری دیتے ہیں۔۔۔۔جو چھوٹی سی لغزش کا بوجھ بھی اپنے اوپر "پہاڑوں" کے وزن سے  زیادہ محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔جو "عشق" میں حد سے گزرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔۔۔۔ جن کو نبیﷺ کے طریقے کے علاوہ ہر طریقہ ہیچ نظر آتا ہے۔۔۔۔ کیا ان کے سامنے میں "اللہ" سے رحم کی اپیل کا حقدار ہوں گا۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ذوہیب۔۔ ذوہیب!!! کیا ہوایار۔۔۔۔ تیرا رنگ ۔۔۔۔۔اف خدایا۔۔۔۔ میں ابھی پانی لیکر آتا ہوں۔۔۔۔۔ میں اپنے حواس میں واپس آرہا تھا۔۔۔۔۔














 
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس کہ بعد میری زندگی بدل گئی ہو گی۔۔۔۔۔۔ نہیں کچھ لوگ پتھر کے دل والے ہوتے ہیں۔۔۔ملتا تو ان کو بھی گوشت کا دل ہی ہے پر گناہوں کی نحوست سے وہ پتھروں سے بھی سخت ہو جایا کرتا ہے تو اس پہ کسی شاعر کی نوا کیا اثر کرے۔۔۔جب آیات الہیہ بھی اثر نہیں کر پاتیں۔۔۔۔۔!

میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا
عاملِ روزہ ہے تو، اور نا پابندِ نماز

تو بھی ہے شیوا اربابِ ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوس، لب پہ تِرے ذکرِ حِجاز

جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
ترا اندازِ تملق بھی سراپا اعجاز

ختم تقریر تری مِدحتِ سرکارﷺ پہ ہے
فکر روشن ہے ترا موجدِ آئینِ نیاز

درِ حکام بھی ہے تجھ کو مقامِ محمود
پالیسی بھی تری پیچیدہ تر زلفِ ایاز

اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمتِ دیں میں ہوسِ جاہ کا راز
ابنِ فاروق
10/7/2014

Tuesday 26 August 2014

shareek e safar


شریکِ سفر
میرے  گھر کی طرح پورا محلہ سبزجھنڈیوں سے سجا ہوا تھا ، یہ ان معصوم بچوں کا کارنامہ تھا جو ہر سال کی طرح پوری رات جاگ کر اپنا یہ مشن مکمل کرتے ہیں۔ وہ اس سجاوٹ میں اس قدر انہماک سے مشغول ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے کی پرواہ کیے  بغیر، تھکن سے لاپرواہ باس جنونیوں کی طرح ہی  لگے رہتے ہیں۔ 14 اگست  والے دن ان سجی گلیوں کی میں سے گزرتے ہر سال میں اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتا ہوں۔۔۔۔!
"احسن یہ دھاگہ پکڑ کر وہ سامنے والی دیوار کے پاس چلا جا۔۔۔ڈھیل نا پڑے، جلدی کرو، ورنہ ابھی دادا جان آگئے تو پہلے ان کی کہانی سننی پڑے گی، جاؤ جلدی کرو۔
مریم ! تم کو گھنٹہ ہو گیا ہے ، کدھر مر گئی ہو۔۔۔ ابھی آئی بھا ئی جان۔
تیرا ستیاناس۔۔۔ یہ کیا کر لائی ہے؟
بھائی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ آٹے میں پانی ڈال کے اس کو ہلاؤ تو وہ چپکنے والی دوائی بن جائے گی۔
اور تو نے اتنا پانی ڈالنا تھا؟ تیرے منہ میں نا ڈال دوں تاکہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔۔!
اب ایسا کر چھپ کے جا اور وہ جو آج ابو جی آٹا لائے ہیں نا اس میں سے دو مٹھی ڈال لا ، ماں سے نظر بچا کہ جانا۔۔اگر کوئی دیکھ لے تو کہنا کہ بھینس کے چارے پر ڈالنے کے لیے منگوائی ہے دادا جان نے۔۔  چل جا جلدی!"
میری ٹانگیں میرا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو گئی تھیں، میں وہاں ہی ایک دکان کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔
"ہا ں ۔ ٹھیک ہے ، جھنڈیاں تو گئی لگ۔۔۔ اب نکالو پیسے سارے سٹیکرز کے جو میں خرید کے لایا ہوں،  اور بڑے جھنڈے کے لیئے سارے پیسے میں نے لگائے تھے اس لیے وہ میری سائیکل پر لگے گا۔۔!
بھائی ایک بار ہاتھ لگا کہ دیکھ لوں؟؟؟   احسن نے کہا!"
سامنے ٹاور پر لگے طویل و عریض جھنڈے سے وہ 1*1 کا چھوٹا سا جھنڈا بڑا جزباتی کرتا تھا۔۔
" داد ا جان ! آپ نے کہا تھا کہ رات کوتم لوگوں کو کہانی سناؤں گا۔۔۔ عشا ء کی نماز کے بعد جب سب لوگ اکٹھے بیٹھے تھے تو مریم نے پوچھا۔
اور نا ۔۔۔میں نے دیکھا کہ دادا جان اکیلے بیٹھے رو رہے تھے! احسن نے بڑی رازداری سے بتایا!
بیٹا ! تم لوگ اتنا خوش کیوں ہو؟
دادا جان آج کے دن پاکستان آزاد ہوا تھا (رٹی ہوئی لائینیں) علیحدہ ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا(مجھے دادا جان کی بے خبری پے افسوس ہوا)۔۔۔!
اور ہمارا بہت کچھ لٹا تھا اس دن۔ دادا جان بولے۔
کیا مطلب؟؟؟ ہم حیران تھے"
میں نے دوبارہ چلنا شروع کر دیا، اب سامنے ایک سکول تھا جس میں جشنِ آزادی کی تقریبات جاری تھیں۔۔۔
"ہم مہاجر ہیں بیٹا !
"مہاجر کیا ہوتا ہے ، دادا جان؟؟؟ احسن نے سوال کیا
جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ، قربان کر کے صرف اپنے دین پر آزادی سے چلنے اور امن و سکون سے رہنے کے لیے اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا بسے۔
ہم لو گ دریائے ستلج کے اس پار رہتے تھے ، جب رمضان کی مبارک ساعتوں میں اگست کا مہینہ آیا تھا ،
ادھر ہماری زمینیں تھیں، جانور تھے، آموں اور جامن کے درخت تھے، ہماری زمین نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی تھی، وہ زمین بڑی زرخیز تھی، میں اس وقت 11 سال کا تھا ، ہم سب خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن پتا چلا کہ ہندووں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس  علاقے میں کسی مسلمان کو نہیں رہنے دیں گے، تم لوگوں نے الگ ملک بنایا ہے تو ادھر ہی رہو۔
میرے والد صاحب کے بڑے ہندو سرداروں سے تعلقات تھے۔ اسی دن ہی رام لعل آیا تھا ،
بھائی جلال دین! تم لوگ نکل جاؤ۔ کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔
کیوں  رام لعل! کیوں ؟؟؟ کیا سالوں سے ہم اکٹھے نہیں رہ رہے؟
جلال دین! یہ مت بھولو کہ تم مسلمان ہو اور تم میں اور ہم میں بہت فرق ہے۔ اب یہ پاکستان بن گیا ہے۔ ہندو اکثرہتی علاقوں میں تو ہر چیز تہس نہس کر دی گئی ہے۔ ماتا جی کی وجہ سے اور تم سے تعلق کی وجہ سے خبردار کرنے آیا ہوں۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں ، نکل جا!
میں نے جس بھی لٹے پٹے مسلمان کو جاتے دیکھا ہے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی ہے، جیسے وہ کسی ایسی جگہ جا رہے ہوں جہاں ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
رام لعل !ہم نے بھی تو ہزار برس حکومت کی ہے ، کبھی کسی کو نہیں نکالا، پھر تم لوگ کیوں؟؟؟
جلال دین! ہندو اورمسلمان کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ ہمارا تمہارا بہت فرق ہے ، تم لوگوں نے آزادی سے رہنے کے لیے بنا تو لیا ہے ملک، اس کو چلا بھی پاؤ گے کے نہیں ۔ یہ تو پتا نہیں ، پر اب تم لوگ یہاں نہیں رہ سکتے، جس قدر جلد ہو سکے نکل جاؤ۔"
سامنے  انڈین فلم کا ایک دیو ہیکل پوسٹر تھا ،جس میں تقریبا عریاں تصاویر تھیں اور اس کی ملک بھر میں شاندار نمائش کے دعوے بھی۔ وہ فرق جس کی خاطر سب کچھ چھوڑا گیا، اس کو جدت پسندی، آزادی نسواں اور امن کی آشا سے تقریبا ختم کیا جا چکا ہے۔اور ہر وہ شخص جو قدامت پسند یا بنیاد پرست نہیں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس "ترقی" کے عمل میں حصہ ڈالنے کو اپنا فرض اول تصور کرتا ہے۔
"سحری کے وقت ہی سب کو اچانک جگا دیا گیا، ساتھ والے گاؤں سے آگ کے انبار اٹھ رہے تھے، پتا چلا کہ ہندو بلوائیوں نے سارے کے سارے گھروں کو آگ لگا دی ہے،عورتوں کی عزت لوٹ کر ان کے سینوں اور شرمگاہوں میں نیزے گاڑ دئیے ہیں ، کچھ عورتوں نے عزتیں بچانے کے لیئے اندھے کنویں میں چھلانگیں لگا دی ہیں۔
داداجان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو چکے تھے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں ، بس ایک ہی بات سب کے ذہنوں میں تھی کہ پاکستان پہنچتے ہی ان کے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔بس تیاری کیا تھی چند گٹھریوں کو پکڑا تھا ، وقت ہی نہیں تھا اوپر سے ان کے حملے کا ڈر ۔۔۔سارے گاؤں والوں نے دریا کی طرف دوڑ لگائی۔دریا تک پہنچنے پر کسی کو کچھ ہوش نہیں تھا ۔18 میل کا سفر پیدل طے ہوا تھا۔ اتنے میں پتا چلا کہ ہندووں نے سارے گاؤں کو آگ لگا دی اور اب انکا رخ اسی جانب ہے۔ دریا کے کنارے چند کشتی والے موجود تھے، ناموں سے مسلمان لگتے تھے پر اس وقت مسلمانوں کو لوٹ رہے تھے۔ وہ کنارے سے کشتی یتنی دور کھڑی کرتے کہ آدمی بمشکل چھلانگ لگا کہ بیٹھ سکے، اگر کوئی گٹھڑی سمیت چھلانگ لگاتا تو ان کا ایک کارندہ جو کشتی کے کونے پہ کھڑاہوتا وہ ایک چھڑی سے ضرب لگاتا  اور وہ سب سامان ادھر ہی گر جاتا۔ یہ پاکستان والوں کی طرف سے ہمارا پہلا استقبال تھا۔
کیا آپ کے ساتھ والے گاؤں سے بھی کوئی بچ کے آپ کے ساتھ آیا تھا؟؟؟ ابو جی نے پوچھا
ہاں وہ اپنے رمضان چچا کو جانتے ہو نا جن کا گاؤں کے کونے پہ مکان ہے۔۔
دادا جان، وہ جو کل آپ کے پاس بیٹھے رو رہے تھے؟؟؟ میں نے حیرت سے پوچھا
ہاں وہی۔۔ ان کا گھر گاؤں کے اخیر میں تھا ، ان کے گھر کے عین سامنے وہ اندھا کنواں تھا جس میں کئی مسلمان عورتیں کودی تھیں، اس کی چار بہنیں تھی، اور یہ سب سے چھوٹا تھا،جب انہوں نے دیکھا کے ان کے پاس بچنے کا کوئی رستہ نہیں تو اس کو ہمارے گھر کی طرف دوڑایا اور خود چاروں کی چاروں اس کنویں میں کود گئیں۔ وہ اپنے علاقے میں سب سے حسین و جمیل تھیں، اپنی عزت لٹنے سے بچانے کے لئیے انہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔"
تب عزت کو خطرہ دشمنوں سے تھا اور اب اپنوں سے ہے۔ جو چند ڈالروں کے عوض ملک کی بہو بیٹوں کو بیچ دیتے ہیں اور اس کے با وجود ان سے بڑا اس امت کا خیر خواہ کوئی نہیں۔ذرا سی لوڈ شیڈنگ پر تو ہنگامے ہوتے ہیں پر قریہ قریہ حوا کی بیٹوں کی عزت تا رتا رکی جاتی ہے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،اب  تو انکو اپنی روح پر لگے زخم مٹانے کے لیئے آگ میں جلنا پڑتا ہے۔
"میرے والد صاحب وہ حالات اور اپنے یاروں کے بچھڑنے کا غم کبھی نہیں بھلا سکے اور انکو ٹی﷽بی کا مرض ہو گیا جس نے انکی وفات پر ہی انکا ساتھ چھوڑا۔ میری عمر اس وقت 11 سال تھی، میری ماں جو ادھر چوہدرانی تھی اب بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کا کرتی تھی۔جس رات میری ایک سالہ بہن کا انتقال ہوا اس رات ہمارے گھر میں دیا روشن کرنے کے لیے تیل تک نہ تھا"
اس کی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو
 اسٹیریوپر کان پھاڑ دینے والی آواز میں لگےاس نغمے کے اس مصرعے نے میرے ذہن میں کئی درددہرا دیئے اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، مین روڈ پر ایک جگہ لوگ ہی لوگ  جمع تھے، میں نے ایک پھل فروش سے اس ہجوم کی وجہ پوچھی ، تو وہ کہنے لگا
کچھ نہیں بابو صاحب ! کچھ منڈے اک نئی گڈی تے فل سپیڈ نال جا رہے سی، ڈیک شیک فل آواز وچ لگیا سی، ایہہ مزدور بابا اچانک سڑک تے آگیا، گڈی ایہنوں سائیڈ مار کے نکل گئی۔
ریسکیو والے نہیں آئے؟ میں نے پوچھا
 بابو جی! اوہ وی تے اج چھٹی منا رہے ہون دے۔۔ہاہاہا

آزادی کے جشن کا نشانہ بننے والا وہ مزدور، میرے دل کو کچھ اور ملال دے گیا تھا۔
گھر آیا تو ٹی وی پہ انقلاب اور آزادی مارچ کا واویلا تھا، ٹی وی بند کر کے میں ٹیرس پہ آیا اور سوچنے لگا کہ
وہ جن کے ہاتھوں میں ہماری تقدیریں ہیں، جو پچھلے ساٹھ سال سے استحصال کر رہے ہیں،کرسی کے لالچ میں کبھی قرآن اٹھالیتے ہیں تو کبھی قسمیں، جن کی دولت پاکستان سے حاصل کی گئی ہے اور باہر محفوظ، جن کا نا تب کچھ چھنا تھا نا اب، جن کی ہر وقت پانچوں انگلیاں گھی میں ہی رہتی ہیں، جو اقتدار میں آنے کے لیے امریکہ کو "رب" مانتے ہیں، جن  کو مسلمانوں کی جان و مال سے اپنے "ڈالر" زیادہ عزیز ہوں، جھوٹ جن کا شیوہ اور وعدہ خلافی جن کا وطیرہ ہو۔۔۔ تو یہ ہیں وہ جن کے لئیے اپنا سب کچھ لٹا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 
منزل انھیں ملی جو"شریکِ سفر" نہ تھے
ابنِ فاروق
2014/8/15