Thursday 28 August 2014

IBLEES SY YARANA BI



۔۔۔۔۔۔۔ابلیس سے یارانہ بھی

Speech Competition اپنا یہ زوہیب  بھی نا!!!قسم سے  جیئنیس ہے ۔ کل کے
۔ Topper میں اس نے کمال کر دیا ، یار ہے تو یہ سائنس کا سٹوڈنٹ، باٹنی ذوالوجی کا
پر کل لگ رہا تھا کہ اقبالیات پر "ڈاکٹرز" اسی نے کیا ہے۔۔۔۔ ہر با رکی طرح دہرایا جانے والا فقرہ میں نے مسکراتے ہوئے سنا۔
اور سر اسد کی تو حالت دیکھنے والی تھی، اردو ڈیپارٹمنٹ میں سے سب سے بہترین بندہ چنا تھا  انھوں نے، دو دفعہ کا ونر۔۔۔۔
پر بن گیا بھیگی بلی۔۔۔۔۔ارسلان نے حمزہ کو لقمہ دیتے ہوئے کہا
ہاہاہا۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔۔۔۔۔قہقہہ کی صدا بلند ہوئی
میں اپنی کلاس کے ساتھ  سٹوڈنٹ کیفے میں بیٹھا ٹریٹ کھا رہا تھا  جو جیتنے کی خوشی میں انہوں نے مجھے دی تھی۔
اس طرح کی کتنی ٹریٹس میں کھاتا تھا سال میں؟؟؟ مجھے تعداد یاد نہیں رہی کبھی۔۔۔۔
اچھا یار زوہیب کیا یہ سچ ہے کہ تو اس بار "بزم اقبال"کا صدر اور یونیورسٹی کے سالانہ میگزین کا چیف ایڈیٹر بن رہاہے؟؟؟  راحیل نے انکشاف کے لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔
ابھی تک تو کنفرم نہیں۔۔۔ پر کل والے مقابلے کے بعد شاید وہ میرے نام پہ غور کریں۔۔۔۔۔ تم کو تو پتا ہے کہ میں ان چیزوں کا ہیڈک نہیں لیتا۔
نہیں لیا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں ۔۔۔ تو کیوں لے گا! وہ تو اب اردو ڈیپارٹمنٹ والے لیں گے نا، جن کی بزم سے 20سالہ بادشاہی ختم ہونے جا رہی ہے 20سالہ بادشاہی ختم ہونے جا رہی ہے۔۔۔احمد نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
آخر ان کو بھی تو پتا چلے کے سائنس کے سٹوڈنٹس میں بھی ادبیت کے جراثیم ہو سکتے ہیں۔۔۔۔کیفے قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھا۔
   


زوہیب سر۔۔۔ پلیز میری بات سنیئے گا!!!
ایک جونیئر بھاگتا بھاگتا مجھے آوازیں دے رہا تھا۔۔۔ سر میں اتنے دن سے آپ کو تلاش کر رہا تھا۔ "Competition
کے بعد آپ کبھی نظر نہیں آئے۔     والے دن
میں نے آپ کی "سپیچ "سنی، میں آپ کا فین ہو گیا ہوں۔۔۔۔      
آٹوگراف چاہیے ؟؟؟ میں نے مسکراتے ہوئے اسکی بات کاٹی۔۔
سر میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں گا۔۔۔خوشی اور جوش سے اس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا۔۔۔۔
میں دن میں کئی دفعہ اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتا تھا، پر مجھے یہ اچھا لگتا تھا کہ میر ے چاہنے والے میر ا انتظار کرتے ہوں، میرے ساتھ لمحات گزارتے فخر محسوس کرتے ہوں اور میرے بعد مجھ پہ رشک کرتے ہوں۔۔۔






 
میں لائبریری میں گیا ہی تھا کہ راحیل نے آواز دی۔۔۔ زوہیب ، زوہیب
میں نے پلٹ کر دیکھا تو پورا گروپ  "جنرل بکس" کی الماری کے گرد اکٹھا دیکھا۔۔۔۔
اوئے ! خیریت تو ہے نا؟؟؟ (جن لوگوں کو کبھی کورس بکس کے اور انگلش ناولز کے علاوہ کبھی دیکھا نہیں تھا انہوں نے "اقبالیات" اٹھا رکھی تھی۔۔۔!)
نہیں ہے۔۔۔ !!!امجد ناگواری سے بولا۔
ہوا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟میں نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا
یار یہ جو اپنا نیا پروفیسر آیا ہے نا "کامن سکلز"کا۔۔۔ اس نے اسائنمنٹ دی ہے کہ ہر سٹوڈنٹ "اقبال"  کے کچھ شعر سلیکٹ کرے اور ان کی 5 "پیجز"کی تشریع کر کے لائے۔۔۔۔۔
تو اس میں پرابلم کیا ہے۔۔۔! میں نے مسکراتے ہوئے کہا
ہمارے باپ۔۔۔! یہی تو  پرابلم ہے کہ اقبال کی شاعری ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے،  شیکسپئر کے ڈرامے پڑھنے کے عادی ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔اسفر غصے سے بولا
اب "شاہیں "کو ہی لے لو ۔۔۔ کتنا ذلیل کیا ہے "انکل اقبال "نے اسے۔۔۔۔راحیل نے قہقہہ لگاتے کہا
مجھے تو اردو شاعروں میں صرف وصی اچھا لگتا ہے۔۔۔ کا ش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا۔۔۔۔۔۔۔حمزہ گنگنایا
اور وہ "حسیں ہاتھ" ویسٹ انڈیز کی کسی "حسینہ " کا ہوتا۔۔۔۔۔ میں نے لقمہ دیا
حمزہ کی تو شکل دیکھنے والی تھی۔۔۔ سب نے دبی آواز میں قہقہہ لگایا(کھڑوس لائبریرین بہت چالو ہے اس حوالے سے۔۔۔۔)
یار ذوہیب! تو اقبال کہ شاعری پہ اتنی تقریریں جھاڑتا ہے ۔۔۔ یاروں کا اتنا سا مسلہ نہیں حل کر سکتا۔۔۔؟
نا صاحب نا۔۔۔۔۔۔۔  ریلٹیوگریڈنگ ہے۔ میں نے بھی تو ٹاپ کرنا ہے۔۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
تیری تو۔۔۔۔۔۔ چل باہر بتاتے ہیں تجھے۔۔! سارے مصنوعی غصے سے بولے!!!
اچھا ۔۔۔!چلو مجھے  "کے ایف سی"سے ایک ڈیل کھلا دو تو تم پانچوں کا  پرابلم ختم۔۔۔
ڈن۔۔۔۔سب نے ایک ساتھ کہا۔
اپنے اپنے شعر سلیکٹ کر کے لےآنا۔۔۔ میں سب کو گایئڈ کر دوں گا۔۔






 
یار زوہیب !!میں نے یہ سلیکٹ کیا ہے۔۔۔ اس کے پوائنٹ بنوا دو۔۔۔۔۔۔۔کل جمع کروانی ہے اسائنمنٹ۔۔۔۔ اسفر نے ایک پیج میرے طرف بڑھایا۔

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟؟؟

سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟؟؟؟

ایک لمحے کے لیئے سردی کی لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی۔مجھے اپنا سارا ماضی، حال اور مستقبل اس ایک شعر کے اندر سموتا ہوا نظر آیا۔۔۔۔  ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔ میں نے تو ساری "کلیات اقبال" پڑھ رکھی تھی۔۔۔۔۔ جو سنسنی میرے جسم میں  اب اتری وہ تو کبھی "شکوہ و جواب شکوہ" سے بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔

" آرزوں سے لبریز دل، خواہشات سے معمور دماغ، آسائشوں کا متلاشی جسم ۔۔۔۔۔ یہ میری حقیقت تھی۔۔۔ نماز پڑھنے جب بھی جاتا تھا تو دل میں عجیب سی بے چینی ہوتی تھی۔۔۔ جلد سے جلد دو چار سجدےکیئے اور "اللہ رحیم ہے" کا نعرہ مستانہ لگا کر باہر۔۔۔ ہاں کبھی سینما میں جانا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔ظاہر یہ کرتا تھا کہ میں تو جانا  نہیں چاہتا، یہ دوست ہی زبردستی کرتے ہیں۔۔۔۔دل تو باغ باغ ہوتا تھا۔۔۔۔تقریروں میں اغیار کے بڑے گِلے۔۔۔۔پر میرا تمدن ہنودی اور وضع نصرانی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جن تحاریر پر مجھے انعامات ملتے تھے ان میں سے اکثر "عشقِ رسولﷺ" پر ہوتی تھیں، لوگ میرے بیاں کردہ جذبات پر سر دھنتے تھے۔۔۔۔۔۔پر زندگی میری   تھی ابلیسی طرز  پر۔۔۔۔ کہاں وہ "نماز" کے تیر لگنے کی تکلیف پر "محبوبِ حقیقی" سے بات کرنے کا لطف بڑھ کر  تھا۔۔۔۔ میں تو سجدہ کہیں اور کرتا اور سوچتا کہیں اور۔۔۔۔۔ کہاں وہ تلاوت کے سننے کے لیے آسمان سے  ملائک آئیں۔۔۔۔۔۔کہاں یہ "قفل" لگے کانوں کی سماعت۔۔۔۔۔۔ کہاں وہ جاں بلب  دوسرے کی پیاس پہ نثار۔۔۔۔ کہاں میں کہ اخوت بنی دشوار۔۔۔۔۔ کہاں وہ  رات کے "راہب" اور دن کے "مجاھد"۔۔۔۔۔ اور کہاں  آج کے "پاسباں" جو مل گئے کعبے سے صنم خانے کو۔۔۔۔۔۔کہاں "عشقِ بلال رضی اللہ" کی گرمیاں۔۔۔۔۔۔اور کہاں "لیلی ِ دنیا" کی حوس۔۔۔۔۔۔کہاں بت شکن رہ گئے۔۔۔۔میں تو "آذر" ہوں۔۔۔۔ میرا ایک ظاہری حلیہ ہے جس سے سب واقف۔۔۔۔ ایک میرا باطن،جو گرد آلود ۔۔۔۔۔۔ایک میری جلوت ہے جو ہے نعروں سے معمور۔۔۔۔ اور میری خلوت"عصیان" سے لبریز۔۔۔۔۔ساری زندگی میں نے ابلیس سے یاری نبھائی۔۔۔۔۔اور حکم خدا سے پیٹھ دکھلائی۔۔۔۔۔میں " اللہ" کا بھی ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔ پر ان شیطانی شہوتوں کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ میں زمیں پر "خلافت" کا جھنڈا سر بلند دیکھنا بھی چاہتا ہوں۔۔۔۔پر "بنیاد پرست" ،  دقیانوسی کہلانا نہیں چاہتا۔۔۔۔ میری خواہش ہے کہ میری شریک حیات"با عفت، حیا دار" ہو۔۔۔۔۔ اور خود " جسٹ فار انٹرٹین" کتنی ہی عورتوں سے تعلق رکھتا ہوں۔۔۔۔۔میں "اللہ" کو بھی راضی دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔پر مخلوق کی ناراضگی میری برداشت سے باہر۔۔۔۔۔میں "مومن" بھی کہلانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔پر ان "ایمان کے آیئنوں" کے سے عمل کر کے جدید دور کے تقاضوں سے دور نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔ان کا تو دل کسی "ایک" کے پاس اور نگاہ کسی "خاص "کی متلاشی تھی۔۔۔۔ ادھر "خرد" کی دل و نگاہ مسلماں نہیں۔۔۔۔۔ان کی نگاہ میں "یا سیدی" بڑے عاشق کے لیئے تھا۔۔۔۔ میرے نزدیک وہ ہیرو جو میرے مغربی آقاؤں کا بڑا نقال(پروفیشنل) ہو۔۔۔ وہ صرف کردار کے نور سے مجسم۔۔۔میں صرف گفتار کا غازی۔۔۔۔میں ثابت۔۔۔ وہ سیارے۔۔۔۔انہوں نے قرآں کو سینے سے لگایا ، کعبہ کو  جبینوں سے بسایا۔۔۔۔ میں نے ترکِ قرآں کا بار اٹھایا۔۔۔۔دشت تو دشت ، دریا بھی نا چھوڑے تم نے۔۔۔۔گنوا دی اسلاف سے جو میراث پائی تھی ہم نے۔۔۔۔۔
ہاں واقعی میں حشر میں کس سے "وفاداری" کا صلہ مانگوں گا۔۔۔۔ !!!! حالانکہ کہ میں جانتا ہوں کہ میرا "اللہ" تو وہ دل دیکھتا ہی نہیں جس میں "دنیا" بسی ہو۔۔۔۔اور مومن تو"اللہ" سے شدید محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔اور عباد الرحمان تو وہ ہیں جو راتوں کو رکوع اور سجود میں گزارتے ہیں۔۔۔۔۔ میں بھی انہیں "بندوں" کی لسٹ میں شمولیت چاہتا ہوں، پر 18+ اور ہالی ووڈ  موویز کے ساتھ رات بسر کرتا ہوں۔۔۔۔۔اور وہ جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جن کے سامنے جب "اللہ" کی آیات کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ "میری" طرح ان پر اندھے اور گونگے بن کر نہیں گرتے۔۔۔۔۔ اور جن کے دل ڈر جاتے ہیں۔۔۔ جو خو ف اور طمع کے ساتھ "رب" کے حضور حاضری دیتے ہیں۔۔۔۔جو چھوٹی سی لغزش کا بوجھ بھی اپنے اوپر "پہاڑوں" کے وزن سے  زیادہ محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔جو "عشق" میں حد سے گزرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔۔۔۔ جن کو نبیﷺ کے طریقے کے علاوہ ہر طریقہ ہیچ نظر آتا ہے۔۔۔۔ کیا ان کے سامنے میں "اللہ" سے رحم کی اپیل کا حقدار ہوں گا۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ذوہیب۔۔ ذوہیب!!! کیا ہوایار۔۔۔۔ تیرا رنگ ۔۔۔۔۔اف خدایا۔۔۔۔ میں ابھی پانی لیکر آتا ہوں۔۔۔۔۔ میں اپنے حواس میں واپس آرہا تھا۔۔۔۔۔














 
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس کہ بعد میری زندگی بدل گئی ہو گی۔۔۔۔۔۔ نہیں کچھ لوگ پتھر کے دل والے ہوتے ہیں۔۔۔ملتا تو ان کو بھی گوشت کا دل ہی ہے پر گناہوں کی نحوست سے وہ پتھروں سے بھی سخت ہو جایا کرتا ہے تو اس پہ کسی شاعر کی نوا کیا اثر کرے۔۔۔جب آیات الہیہ بھی اثر نہیں کر پاتیں۔۔۔۔۔!

میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا
عاملِ روزہ ہے تو، اور نا پابندِ نماز

تو بھی ہے شیوا اربابِ ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوس، لب پہ تِرے ذکرِ حِجاز

جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
ترا اندازِ تملق بھی سراپا اعجاز

ختم تقریر تری مِدحتِ سرکارﷺ پہ ہے
فکر روشن ہے ترا موجدِ آئینِ نیاز

درِ حکام بھی ہے تجھ کو مقامِ محمود
پالیسی بھی تری پیچیدہ تر زلفِ ایاز

اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمتِ دیں میں ہوسِ جاہ کا راز
ابنِ فاروق
10/7/2014

No comments:

Post a Comment