Tuesday 26 August 2014

shareek e safar


شریکِ سفر
میرے  گھر کی طرح پورا محلہ سبزجھنڈیوں سے سجا ہوا تھا ، یہ ان معصوم بچوں کا کارنامہ تھا جو ہر سال کی طرح پوری رات جاگ کر اپنا یہ مشن مکمل کرتے ہیں۔ وہ اس سجاوٹ میں اس قدر انہماک سے مشغول ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے کی پرواہ کیے  بغیر، تھکن سے لاپرواہ باس جنونیوں کی طرح ہی  لگے رہتے ہیں۔ 14 اگست  والے دن ان سجی گلیوں کی میں سے گزرتے ہر سال میں اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتا ہوں۔۔۔۔!
"احسن یہ دھاگہ پکڑ کر وہ سامنے والی دیوار کے پاس چلا جا۔۔۔ڈھیل نا پڑے، جلدی کرو، ورنہ ابھی دادا جان آگئے تو پہلے ان کی کہانی سننی پڑے گی، جاؤ جلدی کرو۔
مریم ! تم کو گھنٹہ ہو گیا ہے ، کدھر مر گئی ہو۔۔۔ ابھی آئی بھا ئی جان۔
تیرا ستیاناس۔۔۔ یہ کیا کر لائی ہے؟
بھائی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ آٹے میں پانی ڈال کے اس کو ہلاؤ تو وہ چپکنے والی دوائی بن جائے گی۔
اور تو نے اتنا پانی ڈالنا تھا؟ تیرے منہ میں نا ڈال دوں تاکہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔۔!
اب ایسا کر چھپ کے جا اور وہ جو آج ابو جی آٹا لائے ہیں نا اس میں سے دو مٹھی ڈال لا ، ماں سے نظر بچا کہ جانا۔۔اگر کوئی دیکھ لے تو کہنا کہ بھینس کے چارے پر ڈالنے کے لیے منگوائی ہے دادا جان نے۔۔  چل جا جلدی!"
میری ٹانگیں میرا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو گئی تھیں، میں وہاں ہی ایک دکان کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔
"ہا ں ۔ ٹھیک ہے ، جھنڈیاں تو گئی لگ۔۔۔ اب نکالو پیسے سارے سٹیکرز کے جو میں خرید کے لایا ہوں،  اور بڑے جھنڈے کے لیئے سارے پیسے میں نے لگائے تھے اس لیے وہ میری سائیکل پر لگے گا۔۔!
بھائی ایک بار ہاتھ لگا کہ دیکھ لوں؟؟؟   احسن نے کہا!"
سامنے ٹاور پر لگے طویل و عریض جھنڈے سے وہ 1*1 کا چھوٹا سا جھنڈا بڑا جزباتی کرتا تھا۔۔
" داد ا جان ! آپ نے کہا تھا کہ رات کوتم لوگوں کو کہانی سناؤں گا۔۔۔ عشا ء کی نماز کے بعد جب سب لوگ اکٹھے بیٹھے تھے تو مریم نے پوچھا۔
اور نا ۔۔۔میں نے دیکھا کہ دادا جان اکیلے بیٹھے رو رہے تھے! احسن نے بڑی رازداری سے بتایا!
بیٹا ! تم لوگ اتنا خوش کیوں ہو؟
دادا جان آج کے دن پاکستان آزاد ہوا تھا (رٹی ہوئی لائینیں) علیحدہ ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا(مجھے دادا جان کی بے خبری پے افسوس ہوا)۔۔۔!
اور ہمارا بہت کچھ لٹا تھا اس دن۔ دادا جان بولے۔
کیا مطلب؟؟؟ ہم حیران تھے"
میں نے دوبارہ چلنا شروع کر دیا، اب سامنے ایک سکول تھا جس میں جشنِ آزادی کی تقریبات جاری تھیں۔۔۔
"ہم مہاجر ہیں بیٹا !
"مہاجر کیا ہوتا ہے ، دادا جان؟؟؟ احسن نے سوال کیا
جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ، قربان کر کے صرف اپنے دین پر آزادی سے چلنے اور امن و سکون سے رہنے کے لیے اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا بسے۔
ہم لو گ دریائے ستلج کے اس پار رہتے تھے ، جب رمضان کی مبارک ساعتوں میں اگست کا مہینہ آیا تھا ،
ادھر ہماری زمینیں تھیں، جانور تھے، آموں اور جامن کے درخت تھے، ہماری زمین نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی تھی، وہ زمین بڑی زرخیز تھی، میں اس وقت 11 سال کا تھا ، ہم سب خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن پتا چلا کہ ہندووں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس  علاقے میں کسی مسلمان کو نہیں رہنے دیں گے، تم لوگوں نے الگ ملک بنایا ہے تو ادھر ہی رہو۔
میرے والد صاحب کے بڑے ہندو سرداروں سے تعلقات تھے۔ اسی دن ہی رام لعل آیا تھا ،
بھائی جلال دین! تم لوگ نکل جاؤ۔ کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔
کیوں  رام لعل! کیوں ؟؟؟ کیا سالوں سے ہم اکٹھے نہیں رہ رہے؟
جلال دین! یہ مت بھولو کہ تم مسلمان ہو اور تم میں اور ہم میں بہت فرق ہے۔ اب یہ پاکستان بن گیا ہے۔ ہندو اکثرہتی علاقوں میں تو ہر چیز تہس نہس کر دی گئی ہے۔ ماتا جی کی وجہ سے اور تم سے تعلق کی وجہ سے خبردار کرنے آیا ہوں۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں ، نکل جا!
میں نے جس بھی لٹے پٹے مسلمان کو جاتے دیکھا ہے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی ہے، جیسے وہ کسی ایسی جگہ جا رہے ہوں جہاں ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
رام لعل !ہم نے بھی تو ہزار برس حکومت کی ہے ، کبھی کسی کو نہیں نکالا، پھر تم لوگ کیوں؟؟؟
جلال دین! ہندو اورمسلمان کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ ہمارا تمہارا بہت فرق ہے ، تم لوگوں نے آزادی سے رہنے کے لیے بنا تو لیا ہے ملک، اس کو چلا بھی پاؤ گے کے نہیں ۔ یہ تو پتا نہیں ، پر اب تم لوگ یہاں نہیں رہ سکتے، جس قدر جلد ہو سکے نکل جاؤ۔"
سامنے  انڈین فلم کا ایک دیو ہیکل پوسٹر تھا ،جس میں تقریبا عریاں تصاویر تھیں اور اس کی ملک بھر میں شاندار نمائش کے دعوے بھی۔ وہ فرق جس کی خاطر سب کچھ چھوڑا گیا، اس کو جدت پسندی، آزادی نسواں اور امن کی آشا سے تقریبا ختم کیا جا چکا ہے۔اور ہر وہ شخص جو قدامت پسند یا بنیاد پرست نہیں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس "ترقی" کے عمل میں حصہ ڈالنے کو اپنا فرض اول تصور کرتا ہے۔
"سحری کے وقت ہی سب کو اچانک جگا دیا گیا، ساتھ والے گاؤں سے آگ کے انبار اٹھ رہے تھے، پتا چلا کہ ہندو بلوائیوں نے سارے کے سارے گھروں کو آگ لگا دی ہے،عورتوں کی عزت لوٹ کر ان کے سینوں اور شرمگاہوں میں نیزے گاڑ دئیے ہیں ، کچھ عورتوں نے عزتیں بچانے کے لیئے اندھے کنویں میں چھلانگیں لگا دی ہیں۔
داداجان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو چکے تھے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں ، بس ایک ہی بات سب کے ذہنوں میں تھی کہ پاکستان پہنچتے ہی ان کے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔بس تیاری کیا تھی چند گٹھریوں کو پکڑا تھا ، وقت ہی نہیں تھا اوپر سے ان کے حملے کا ڈر ۔۔۔سارے گاؤں والوں نے دریا کی طرف دوڑ لگائی۔دریا تک پہنچنے پر کسی کو کچھ ہوش نہیں تھا ۔18 میل کا سفر پیدل طے ہوا تھا۔ اتنے میں پتا چلا کہ ہندووں نے سارے گاؤں کو آگ لگا دی اور اب انکا رخ اسی جانب ہے۔ دریا کے کنارے چند کشتی والے موجود تھے، ناموں سے مسلمان لگتے تھے پر اس وقت مسلمانوں کو لوٹ رہے تھے۔ وہ کنارے سے کشتی یتنی دور کھڑی کرتے کہ آدمی بمشکل چھلانگ لگا کہ بیٹھ سکے، اگر کوئی گٹھڑی سمیت چھلانگ لگاتا تو ان کا ایک کارندہ جو کشتی کے کونے پہ کھڑاہوتا وہ ایک چھڑی سے ضرب لگاتا  اور وہ سب سامان ادھر ہی گر جاتا۔ یہ پاکستان والوں کی طرف سے ہمارا پہلا استقبال تھا۔
کیا آپ کے ساتھ والے گاؤں سے بھی کوئی بچ کے آپ کے ساتھ آیا تھا؟؟؟ ابو جی نے پوچھا
ہاں وہ اپنے رمضان چچا کو جانتے ہو نا جن کا گاؤں کے کونے پہ مکان ہے۔۔
دادا جان، وہ جو کل آپ کے پاس بیٹھے رو رہے تھے؟؟؟ میں نے حیرت سے پوچھا
ہاں وہی۔۔ ان کا گھر گاؤں کے اخیر میں تھا ، ان کے گھر کے عین سامنے وہ اندھا کنواں تھا جس میں کئی مسلمان عورتیں کودی تھیں، اس کی چار بہنیں تھی، اور یہ سب سے چھوٹا تھا،جب انہوں نے دیکھا کے ان کے پاس بچنے کا کوئی رستہ نہیں تو اس کو ہمارے گھر کی طرف دوڑایا اور خود چاروں کی چاروں اس کنویں میں کود گئیں۔ وہ اپنے علاقے میں سب سے حسین و جمیل تھیں، اپنی عزت لٹنے سے بچانے کے لئیے انہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔"
تب عزت کو خطرہ دشمنوں سے تھا اور اب اپنوں سے ہے۔ جو چند ڈالروں کے عوض ملک کی بہو بیٹوں کو بیچ دیتے ہیں اور اس کے با وجود ان سے بڑا اس امت کا خیر خواہ کوئی نہیں۔ذرا سی لوڈ شیڈنگ پر تو ہنگامے ہوتے ہیں پر قریہ قریہ حوا کی بیٹوں کی عزت تا رتا رکی جاتی ہے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،اب  تو انکو اپنی روح پر لگے زخم مٹانے کے لیئے آگ میں جلنا پڑتا ہے۔
"میرے والد صاحب وہ حالات اور اپنے یاروں کے بچھڑنے کا غم کبھی نہیں بھلا سکے اور انکو ٹی﷽بی کا مرض ہو گیا جس نے انکی وفات پر ہی انکا ساتھ چھوڑا۔ میری عمر اس وقت 11 سال تھی، میری ماں جو ادھر چوہدرانی تھی اب بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کا کرتی تھی۔جس رات میری ایک سالہ بہن کا انتقال ہوا اس رات ہمارے گھر میں دیا روشن کرنے کے لیے تیل تک نہ تھا"
اس کی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو
 اسٹیریوپر کان پھاڑ دینے والی آواز میں لگےاس نغمے کے اس مصرعے نے میرے ذہن میں کئی درددہرا دیئے اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، مین روڈ پر ایک جگہ لوگ ہی لوگ  جمع تھے، میں نے ایک پھل فروش سے اس ہجوم کی وجہ پوچھی ، تو وہ کہنے لگا
کچھ نہیں بابو صاحب ! کچھ منڈے اک نئی گڈی تے فل سپیڈ نال جا رہے سی، ڈیک شیک فل آواز وچ لگیا سی، ایہہ مزدور بابا اچانک سڑک تے آگیا، گڈی ایہنوں سائیڈ مار کے نکل گئی۔
ریسکیو والے نہیں آئے؟ میں نے پوچھا
 بابو جی! اوہ وی تے اج چھٹی منا رہے ہون دے۔۔ہاہاہا

آزادی کے جشن کا نشانہ بننے والا وہ مزدور، میرے دل کو کچھ اور ملال دے گیا تھا۔
گھر آیا تو ٹی وی پہ انقلاب اور آزادی مارچ کا واویلا تھا، ٹی وی بند کر کے میں ٹیرس پہ آیا اور سوچنے لگا کہ
وہ جن کے ہاتھوں میں ہماری تقدیریں ہیں، جو پچھلے ساٹھ سال سے استحصال کر رہے ہیں،کرسی کے لالچ میں کبھی قرآن اٹھالیتے ہیں تو کبھی قسمیں، جن کی دولت پاکستان سے حاصل کی گئی ہے اور باہر محفوظ، جن کا نا تب کچھ چھنا تھا نا اب، جن کی ہر وقت پانچوں انگلیاں گھی میں ہی رہتی ہیں، جو اقتدار میں آنے کے لیے امریکہ کو "رب" مانتے ہیں، جن  کو مسلمانوں کی جان و مال سے اپنے "ڈالر" زیادہ عزیز ہوں، جھوٹ جن کا شیوہ اور وعدہ خلافی جن کا وطیرہ ہو۔۔۔ تو یہ ہیں وہ جن کے لئیے اپنا سب کچھ لٹا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔! 
منزل انھیں ملی جو"شریکِ سفر" نہ تھے
ابنِ فاروق
2014/8/15

No comments:

Post a Comment